چیف جسٹس اور ملک ریاض میں اربوں کی باتیں ۔۔۔

Table of Contents
آج کل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی اقدامات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسی زمن میں حال ہی میں چیف جسٹس کی جانب سے لیے گئے ایک سو مو ٹو کیس میں پاکستان کی رئیل اسٹیٹ کی سب سے بڑی شخصیت ملک ریاض کو عدالت میں مدعو کیا گیا۔ اس کی وجہ سپریم کورٹ میں جاری مارگلہ ہلز میں درختوں کی کٹائی کے متعلق کیس کی سماعت بنی۔
کیس کی سماعت کے دوران جب بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سرکاری اراضی کی زمین پر قبضے کا زکر ہوا تو چیف جسٹس نے عدالت میں بیٹھے ملک ریاض سے استفسار کیا کے ملک صاحب، کیا آپ کے پاس ایک ہزار روپے ہیں؟ آئندہ سماعت پر ایک ہزار ارب کا بندوبست کر کے آئیں۔ جس پر ملک ریاض نے کہا کے میرے پاس ایک ہزار ارب تو کیا ایک سو ارب بھی نہیں ہیں، ایک ارب تو امریکہ کے پاس بھی نہیں ہونگے۔
سماعت تھوڑی آگے بڑھی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو کس کے پاس ہیں!!! چیف جسٹس نے پھر کہا کہ پاکستان کا سارا پیسہ تو ملک ریاض کے پاس ہے۔ جس کے جواب میں ملک ریاض نے کہا کہ میرے پاس جو بھی پیسہ ہے وہ سب حلال کا ہے۔ اس کے بعد ملک ریاض نے عدالت میں بیس منٹ تک اپنی بات کرنے کی استدعا کی کی جسکی چیف جسٹس نے اگلی سماعت میں اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کے جو بھی تجاوزات آپ نے کی ہیں ان کی ادائیگی تو آپ کو کرنی ہوگی۔
چیف جسٹس نے ملک ریاض کو یکم اکتوبر کو اعدالت میں اپنی بات رکھنے کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
ناقدین کے متابق چیف جسٹس کا اس طرح ملک ریاض سے ایک ارب طلب کرنا کوئی لفّازی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کیس میں ملک ریاض کو کتنے ارب دینے پڑھتے ہیں یا ایک بار پھر ملک ریاض عدالتی چنگل سے آزاد نکل آتے ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران جب بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سرکاری اراضی کی زمین پر قبضے کا زکر ہوا تو چیف جسٹس نے عدالت میں بیٹھے ملک ریاض سے استفسار کیا کے ملک صاحب، کیا آپ کے پاس ایک ہزار روپے ہیں؟ آئندہ سماعت پر ایک ہزار ارب کا بندوبست کر کے آئیں۔ جس پر ملک ریاض نے کہا کے میرے پاس ایک ہزار ارب تو کیا ایک سو ارب بھی نہیں ہیں، ایک ارب تو امریکہ کے پاس بھی نہیں ہونگے۔
سماعت تھوڑی آگے بڑھی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو کس کے پاس ہیں!!! چیف جسٹس نے پھر کہا کہ پاکستان کا سارا پیسہ تو ملک ریاض کے پاس ہے۔ جس کے جواب میں ملک ریاض نے کہا کہ میرے پاس جو بھی پیسہ ہے وہ سب حلال کا ہے۔ اس کے بعد ملک ریاض نے عدالت میں بیس منٹ تک اپنی بات کرنے کی استدعا کی کی جسکی چیف جسٹس نے اگلی سماعت میں اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کے جو بھی تجاوزات آپ نے کی ہیں ان کی ادائیگی تو آپ کو کرنی ہوگی۔
چیف جسٹس نے ملک ریاض کو یکم اکتوبر کو اعدالت میں اپنی بات رکھنے کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
ناقدین کے متابق چیف جسٹس کا اس طرح ملک ریاض سے ایک ارب طلب کرنا کوئی لفّازی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کیس میں ملک ریاض کو کتنے ارب دینے پڑھتے ہیں یا ایک بار پھر ملک ریاض عدالتی چنگل سے آزاد نکل آتے ہیں۔